منگل، 7 اپریل، 2020

Asim nadeem aasi

جرا ثیموں بھری سوئی سے تن کو سی رہے ہیں
دوائی زہر سی ھے زہر بھی تو پی رہے ہیں

ہمارا سانس ہی سر طان بن جائے نہ دل کا
ہم ایسی حبس آمیزہ ہوا میں جی رہے ہیں

قرنطینہ میں رکھے ہوں یا اہراموں کے اندر
بدن عبرت  سرا ماحول  پرطاری  رہے  ہیں

تگ و تازِ نفس  ھے موت  کے مدِمقابل
لہو انسان کا نادیدہ کیڑے پی رہے ہیں

سرشتِ  آدمی  میں  ہارنا شامل  نہیں  ھے
مسائل جوبھی ہیں حالات جیسے بھی رہے ہیں

تو کیا ھے گر ملا لیں جھوٹ اور سچائی کے جِین
وہ ایسے تجربے ویسے بھی تو کر ہی رہے ہیں

نئی دنیاؤں کے جو پاسورڈ سوچے ہیں ہم نے
وہ عاصم زندگی کی ابتدائی,, کی,, رہے ہیں

عاصم ندیم عاصی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں